Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈمعاہدہ سبوتاژ کا شکار

ضیاء الحق سرحدی ziaulhaqsarhadi@gmail.com افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ جسے ( اے پی ٹی ٹی اے) بھی کہا جاتا ہے ایک باہمی تجارتی معاہ...

ضیاء الحق سرحدی

ziaulhaqsarhadi@gmail.com

افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ جسے ( اے پی ٹی ٹی اے) بھی کہا جاتا ہے ایک باہمی تجارتی معاہدہ ہے جس پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2010 ء میں دستخط ہوئے تھے جس میں دونوں ممالک کے مابین سامان کی نقل و حرکت میں زیادہ سے زیادہ سہولیات اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ 

افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے پر راقم وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار کرتا رہا تاکہ قارئین کو اس معاہدے کے حوالے سے تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں آگاہی ملتی رہے۔افغانستان تین کروڑ نفوس پر مشتمل ایشیاء کا ایک نہایت اہم ملک ہے پسماندہ ہونے کے باوجود امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے نہایت شہرت کا حامل ہے۔محل و قوع کے اعتبار سے چاروں اطراف سے خشکی میں گھرا ہوا ہے۔ 

خشکی کے راستے اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق جنیوا کنونشن 1958ء کے تحت پڑوسی ممالک پر سہولتیں مہیا کرنا لازمی قرا ردیا تھا۔ اقوام متحدہ کانفرنس آن ٹریڈ ڈویلپمنٹ نے 1964ء میں پہلے اجلاس میں آٹھ رہنما اصولوں پر اتفاق کیا اور 2مارچ 1965ء کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ (ATTA)جوکہ15شقوں پر مشتمل تھی ایک پروٹوکول جوکہ اس وقت کے پاکستان کے وزیر تجارت وحید الزمان اور افغانستان کے وزیرتجارت سرور عمر نے دستخط کئے تھے۔

معاہدے کے تحت پانچ مقامات کو ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے مختص کیا گیاتھا ۔ لیکن اس کے برعکس آخر کار امریکی سرکار کے ایماء پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اکتوبر 2010ء کو افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کا نیا معاہدہ عمل میں لایا گیاتھا۔ یہ معاہدہ58آرٹیکلز اور تین پروٹوکولز پر مشتمل دستاویز تھی۔

اکتوبر2010ء میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سامان تجارت کی ترسیل کے لئے افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ(APTTA) امریکہ کے دبائو سے ہواتھا، اس نئے معاہدے میں این ایل سی کی جگہ بانڈڈ کیرئیر کو سامان تجارت کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ پاکستان ریلوے کو بھی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت آنے والے سامان تجارت کی ترسیل کی اجازت برقرار رہی، اس طرح یہ سامان پاکستان کی بندرگاہوں سے افغانستان تک ترسیل ہوتا رہا۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت اور دوستی دونوں ممالک کے وسیع تر مفاد میں ہے۔

افغان ہمارے پختون اور مسلمان بھائی ہیں جو کہ تاریخی لحاظ سے گہرے خونی ، ثقافتی، زبانی اور مذہبی رشتوں میں منسلک ہیں اور دوستانہ اور اچھے تعلقات دونوں ممالک کے بہترین مفاد میں ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان دنیا کے دو ایسے ممالک ہیں کہ الگ الگ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ابھی حال ہی میں منسٹری آف کامرس اسلام آباد نے SRO1380کے تحت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ مین 14اشیاء (212)پر پابندی لگا دی ہے حالانکہ18سال پہلے وفاقی حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کارگوپر 17اشیاء پر پابندی لگا دی تھی جس کی وجہ سے پاکستان ریلوے کو فریٹ کی مد میں سالانہ 3ارب روپے کا خسارہ کرنا پڑا اور وہی 17اشیاء بذریعہ ہوائی جہاز مشرق وسطی سے روزانہ 3فلائٹوں کے ذریعے کابل افغانستان آنا شروع ہوگئی تھیں اور وہی اشیاء سمگل ہو کرپاکستان مین بھی آنا شروع ہوگئی تھیں کیا اس وقت ان 17اشیاء کو سمگلنگ سے روکا گیا ؟ 

ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر پابندی لگانے کی بجائے سمگلنگ پر قابو پایا جائے اس وقت ایران کے راستے سینکڑوں ٹرک روزانہ ایرانی پیٹرول ،ڈیزل،آٹو پارٹس، سگریٹ ودیگر سامان لیکر پاکستان آرہے ہیں ان کو کیوں نہیں روکا جاتا صرف اور صرف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کارگو کو کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے ؟ اور اسی طرح SRO1397کے تحت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے گڈز پر 10فیصد پراسیسنگ فیس عائد کردی ہے جس کی وجہ سے یکم اکتوبر 2023سے بوقت تحریر ابھی تک کراچی پورٹ پر ایک بھی جی ڈی (گڈز ڈیکلریشن)فائل نہ ہو سکی جس کی وجہ سے افغان ٹرانزٹ کارگو کراچی سے بندر عباس اور چابہارمنتقل ہو گیا ہے۔اس اقدام سے ہزاروں لوگوں کا کاروبار ختم ہو گیا ہے جبکہ 50ہزار خاندان اس کاروبار سے وابسطہ ہیں۔

APTTAآرٹیکل33دونوں ممالک کے درمیان یکساں قومی سلوک کا مطالبہ کرتا ہے جس کے خلاف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے کوئی ملکی قانون سازی نہیں کی جاسکتی اور اس طرح APTTAآرٹیکل 39دونوں فریقوں کو صلاح مشورہ کر کے کوئی اقدام اٹھانا چاہیے نہ کہ صرف ایک فریق کوئی اقدام کر سکتا ہے۔پاکستان کے راستے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا مسئلہ درحقیقت ٹرانزٹ ٹریڈ اپٹا پر مبنی ہے اور تمام اصول و ضوابط بالکل واضح ہیں لیکن پاکستان کی جانب سے یکطرفہ طور پر جو حالیہ اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ نامناسب ہیں۔ جیسا کہ اپٹیکا پر اتفاق ہوا کہ اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اپٹیکا اجلاس باضابطہ طور پر بلایا جائے گا اور مسئلے کا حل تلاش کیا جائے گا، لیکن بدقسمتی سے دونوں جانب سے نہ تو اپٹیکا اجلاس بلایا گیا اور نہ ہی افغان فریق کو آگاہ کیا گیا۔ 

اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان جان بوجھ کر اپٹا کی خلاف ورزی کرنا چاہتا ہے یا وفاقی اعلی سطحی حکام کو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے بعض عناصر نے گمراہ کیا؟ اگر اسمگلنگ کے معاملے میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو مورد الزام ٹھہرانا ہے تو ان حکام کو یہ ثبوت فراہم کرنے ہوں گے کہ کراچی سے طورخم/چمن/غلام خان کے راستے گزشتہ 13سالوں سے افغان ٹرانزٹ کارگوکہاں سے سمگل ہوا ہے یہ سراسر الزام تراشی ہے جو کہ پاکستان افغانستان سے تعلقات کو خراب کرنے کی سازش ہے حالانکہ حفاظتی اقدامات سے پہلے ٹرانزٹ ٹریڈ کارگو میں انشورنس گارنٹی کسٹم سیکورٹی کی شق میں شامل ہے جو اس وقت موثر طریقے سے کام کر رہی ہے اور یہ شق اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ راستے میں کارگو کو نقصان کی صورت میں پاکستان کو کسٹم ڈیوٹیوں کی مد میں ادا کیا جائے گاجبکہ 13سالوں میں ابھی تک کوئی ایسا واقع رونما نہیں ہوا اور تقریباً 10لاکھ سے زائد کارگو کنٹینرز محفوظ طریقے سے افغانستان جا چکے ہیں۔ 

اب وفاقی حکومت نے انشورنس گارنٹی کی جگہ 100فیصد بنک گارنٹی لاگو کر دی ہے۔یہ اقدامات انتہائی منصفانہ اور بہت سخت ہیں اس سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارت پر منفی اثرات مرتب ہونگے اور فائدے کی بجائے نقصان ہوگا۔چونکہ یہ خطہ پہلے ہی شدید بے روزگاری/غربت کے عدم تحفظ کا شکار ہے، اس لیے حالیہ یکطرفہ فیصلوں کے بارے میں دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے اور تمام ٹرانزٹ ٹریڈ کو معمول کے مطابق جاری رکھنا چاہیے بصورت دیگر ٹرانزٹ ٹریڈ کو روکنا افغانستان کی لائف لائن کو روکنے کے مترادف ہوگا اور اس اقدام سے منفی اثرات مرتب ہونگے اور افغان حکومت کی طرف سے وسطی ایشیاء میں پاکستان کی درآمدات اور برآمدات بھی متاثر ہوں گی۔

 واضح رہے کہ افغانستان اورپاکستان دونوں میں تاجر/صنعت کار ان سرگرمیوں کو وسعت دینے کے حق میں ہیں جو خطے میں سلامتی کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس طرح کا کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے حقیقی تاجروں/صنعت کاروں کا اسٹیک ہولڈروں کو اعتماد میں میں لینا ضروری ہے۔اس وقت ہماری پاک افغان باہمی تجارت 1400ملین ڈالرز ہے یہ4/5بلین ڈالرز تک بھی جا سکتی ہے بشرطیکہ دونوں ممالک اپنے فیصلوںپر نظر ثانی کریں حالانکہ کافی عرصہ سے دونوں ملکوں کی خواہش تھی کہ یہ حجم 4/5بلین ڈالرز تک ہو جائے جبکہ اس وقت پاکستان وسطی ایشیائی ممالک کوتین سے چھ سوملین ڈالرز کے قریب اشیاء بھیجتے ہیں اس حجم کو بھی مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جو SROمنسٹری آف کامرس نے 3اکتوبر کو جاری کیے تھے اس وقت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کارگوکے تقریباً دوہزار کے قریب کنٹینرزکراچی پورٹ پر پائپ لائن میں کھڑے تھے ان گڈز کو 3اکتوبر سے پہلے والے طریقے کار سے کلیئر کیا جائے کیونکہ ان گڈز کے (بی ایل )بل آف لیڈنگ SROجاری ہونے سے پہلے جاری ہو چکے تھے۔وفاقی حکومت اس مسئلے پر نظر ثانی کر کے ان کنٹینرز کو افغانستان جانے کی اجازت د ے۔

کوئی تبصرے نہیں