Page Nav

HIDE

تازہ ترین خبر:

latest

عین پاکستان (طنزومزاح)

قدیم یونان کی شہری ریاستوں کے جنم پذیر ہوتے ہی جو سب سے اہم ضرورت محسوس کی گئی وہ تھی شہریوں اور ریاست کے مابین اعتمادکی فضا کا ہموار ہونا۔ا...

قدیم یونان کی شہری ریاستوں کے جنم پذیر ہوتے ہی جو سب سے اہم ضرورت محسوس کی گئی وہ تھی شہریوں اور ریاست کے مابین اعتمادکی فضا کا ہموار ہونا۔اس لئے پر امن ریاست کی بنیادی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام اور ریاست کے درمیان ایک ”عمرانی معاہدہ“(اس معاہدہ کا تعلق سابق وزیراعظم عمران سے ہرگز نہیں)کا قیام عمل میں آیا۔جس کے مطابق سماج کے مختلف شعبے اپنے اپنے کام سے آگاہ تھے اور اصولِ تقسیم ِ کار کے تحت ان کے حقوق وفرائض بھی متعین  تھے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی بھی ریاست پرامن نہ ہوتی بلکہ سماجی امن تہہ و بالا ہوجاتا۔ریاستی امن کو تہہ و بالا ہونے سے بچاؤ کے لئے آئین بنایا گیا تاکہ ریاست میں امن قائم ہو سکے۔آئین دراصل کسی ریاست کے لئے قوانین و اصول کا ایسا مجموعہ ہوتا ہے جو ایک سیاسی اختیارات و کارکردگی کو متعین کرتا ہے۔دنیا کے ممالک اگربلحاظ تحریری آئین جائزہ لیا جائے تو بھارت کا سب سے بڑا آئین ہے جبکہ امریکی دستوردنیا کے کسی ملک کا سب سے چھوٹا آئین ہے۔اسی لئے دونوں چھوٹا اور بڑا مل کر دنیا کو تنگ کرتے ہیں۔

مذکور آئین کی تعریف کو صرف آئین ہی سمجھا جائے،سنجیدہ نہ لیا جائے۔اب آتے ہیں دستور کے پوسٹمارٹم کی طرف۔آئین کی اس سے جامع اور سہل تعریف ایک عام پاکستانی کی نظر میں ہو ہی نہیں سکتی کہ ایسی کتاب جو”عین پاکستان“نہ ہوآئین کہلاتا ہے۔آئین پاکستان کے متعلق جو طبقہ سب سے زیادہ آئیں بائیں شائیں کرتا ہے وہ سیاستدان ہیں۔کیونکہ ہمیں خود خبر نہیں کہ خبر کیا ہے کے مصداق وہ نہیں جانتے کہ آئین کیا ہے؟بلکہ ایک ٹی وی اینکر نے سیاستدان سے ہوچھا کہ

سر آپ بتائیں گے کہ آئین کیوں بنایا؟

سیاستدان۔حضور غلطی ہو گئی دوبارہ نہیں بنائیں گے۔

اینکر؛سر میرا سوال سنجیدہ ہے۔

سیاستدان؛میں بھی سنجیدہ ہوں۔

اینکر؛مگر آئین پاکستان سر

سیاستدان؛ہاں وہ سنجیدہ نہیں۔

مطالعہ پاکستان اور آئین پاکستان کی رو سے اس سے بڑا لطیفہ کوئی نہیں ہو سکتا کہ ”پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں“،یہ بات عوام کے سروں کے اوپر سے گزر جاتی ہے۔کیونکہ ان کے مطابق چشمہ و سر چشمہ صرف”طاقتور“ہیں۔اور طاقتور کا چشمہ پانی نہیں بہاتا بلکہ خون نچوڑتا ہے۔گویا آئین وہ عمل ہے جس پر کبھی عمل نہیں کیا جاتا۔اس سے بڑا فکاہیہ پن کیا ہو سکتا ہے کہ آئین عوام کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے،حالانکہ عوام کا خیال ہے کہ آئین کے ہر صفحہ پر عوام نہیں ”خاص“ہیں،عوام کی تو بس”لال اے بھئی لال“ ہے۔حال سے قبل کسی کو پتہ نہیں تھا کہ کس کی لال ہے بھلا ہو پی ڈی ایم حکومت کا کہ جس نے بتا دیا کہ کس کی کہاں کہاں سے ”لال“ہے۔آئین واحد کتاب ہے جس نے ہمیشہ غریب کو دلاسہ و کاسہ جبکہ امیر کو ”کاکا“ ہی دیا ہے۔پاکستان میں جسے کوئی راہ نہیں دیتا آئین اسے باہر کا راستہ دیتا ہے۔پاکستان میں اگر آپ آئین کے مطابق چلتے ہیں تو جیل وگرنہ”پلین“۔

اگر آپ کا حافظہ کام کررہا ہو تو 62 کے آئین کے بارے میں جسٹس کیانی نے کہا تھا کہ آئین میں ایوب خان کو وہی اہمیت ہے جو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کو۔یعنی جس بازار میں جائیں سامنے گھنٹہ گھر منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔اسی طرح آئین کا کوئی صفحہ کھولیں سامنے ایوب کھڑا۔۔۔۔۔۔۔پاکستان میں اب تک تین آئین پیش کئے جا چکے ہیں ایک عوامی،ایک فوجی اور ایک ”درمیانہ سائز“کا۔73 کے آئین کو سب سے بہتر سمجھا جاتا تھا،حالیہ ”اجتماعی زیادتی“ سے یہ بھرم بھی جاتا رہا کہ یہ آئین بھی امنگوں کا نہیں ”ترجمانوں“کاآئین ہے۔بلکہ ترجمان بھی ”وہ“جن کے سبھی ترجمان ہیں۔اب اگر آپ اسٹیبلسمنٹ سمجھ جائیں تو میرا کوئی دوش نہیں۔سننے میں یہ بھی آیاہے کہ 73 کا آئین ”طاقتوروں“کی راہ ہموار کرتا ہے اسی لئے چوتھا آئین نہ بن پایا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کتنے ہی ننھے منھے آئین”کوچہ و بازار“ کی زینت بنے ہوتے۔سنا تو یہ بھی تھا کہ آئین منگولوں (غیر مہذب) کو مغل(مہذب) بنا دیتا ہے،سب جھوٹ ہے آئین،پاکستان میں ہو تو اچھے بھلے مغل کو منگول بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔ہمارے سیاستدان،سیاست میں آنے سے قبل مغل ہی تھے۔منگول،آئین پر عملدرآمد کے بعد ہوئے ہیں۔

73 کے آئین میں جتنے بھی باب ہیں سب”Bکلاس“ہیں لیکن آرٹیکل58/2B سب کا باپ ہے۔پاکستان کے تینوں آئین میں جس باب کے تقدس کا خیال نہیں رکھا گیا وہ از خود آئین ہے۔میرا ایک دوست کہتا ہے کہ طوائف کا تقدس کوٹھے پر اور آئین کا پارلیمنٹ میں ہوتا ہے۔کیونکہ عوام میں مذکور دونوں کا تقدس پامال ہوجاتا ہے۔شائد اسی لئے دونوں عوام میں جانے سے کتراتے ہیں۔بلوچس
تان والوں سے کسی نے پوچھا کہ آئین سب کا باپ ہوتا ہے تو آپ کیوں عمل نہیں کرتے؟تو سادہ سا جواب ملا کہ ”ہم نے اپنا ”باپ“(بلوچستان عوامی پارٹی)بنا رکھا ہے۔”ناجائزباپ“بنانے میں انڈیا کو کوئی جواب نہیں کیونکہ ان کا آئین دنیا میں سب سے طویل سمجھا جاتا ہے۔اگر آئین طویل ہے تو ظاہر ہے کہ ان کے”باپ“بھی زیادہ ہی ہوں گے۔سوری میری مراد ”باب“تھے

آئین کی اگر تعریف مجھ سے پوچھی جائے تو میرے مطابق بے ترتیب بھیڑوں کے ریوڑ کو ہانکنے والے چرواہے کے ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے کا نام آئین ہے۔پاکستان میں یہ ڈنڈہ صرف ”آمر“ کے ہاتھ میں لہراتا رہا۔لہذا جن ممالک کو آئین کی ضرورت پڑتی ہے وہ یا تو”بھیڑ“ہیں یا بھِیڑ”ہجوم“۔دنیا میں اب تک پانچ ایسے ممالک ہیں جن کے پاس تحری آئین موجود نہیں جیسے کہ اسرائیل،انگلینڈ،نیوزی لینڈ،سعودیہ اور کینیڈا،میری ذاتی رائے میں ان ممالک کو آئین کی ضرورت اس لئے پڑتی کہ یہ سب ڈنڈے نہیں بلکہ ”ڈنڈ“پہ یقین رکھتے ہیں۔اور جو یقین نہیں رکھتا ان ممالک میں ایسی ایسی جگہ پر حکومت”رکھتی“ہے کہ عوام کو وہاں وہاں روئی کے”پھمبے“وہ بھی سپرٹ لگا کر رکھنے پڑتے ہیں۔اور یہاں وہ نعرہ مستانہ مبنی بر صداقت لگتا ہے کہ”لال اے بھئی لال اے“

لیکن ہمارے ہاں 

دستور یہاں بھی گونگے ہیں،فرمان یہاں بھی اندھے ہیں 

اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں 

آئین پاکستان جب بنا تھا تو ”عینِ پاکستان“ہی تھا یہ تو بھلا ہو ہمارے ارباب اقتدار کا جنہوں نے مل کر اسے عین غین ف بنا دیا۔تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔حالیہ ماحول میں جیسے عوام کی بج رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ اب بانس اور بانسری دونوں ہی بجیں گے اور وہ بھی ارباب اقتدار کے ہاتھوں۔

کوئی تبصرے نہیں