اسلام آباد(جی این اے)عمران خان کیلئے جیل میں ٹرائل ہی بہتر ہے،ہاں ٹرائل کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں،ہائی کورٹ اسلام آباد نے عمران خان کی درخوا...
اسلام آباد(جی این اے)عمران خان کیلئے جیل میں ٹرائل ہی بہتر ہے،ہاں ٹرائل کورٹ سے رجوع کرسکتے ہیں،ہائی کورٹ اسلام آباد نے عمران خان کی درخواست پر فیصلہ سنا دیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست نمٹاتے ہوئے عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ جیل ٹرائل میں ویسے تو کوئی بدنیتی دکھائی نہیں دے رہی لیکن پھر بھی اگر اس میں خدشات ہیں تو پٹیشنرٹرائل کورٹ سے رابط کرسکتے ہیں،سیکیورٹی کے حوالے سے خود عمران خان کئی بار اپنے خدشات واضع کرچکے ہیں اسی لئے جیل میں ہی ٹرائل کورٹ ٹھییک رہے گا۔
یاد رہے کہ عمران خان نے سائفر کیس کے سلسلے میں جیل ٹرائل کے خلاف درخواست جمع کرائی ہوئی تھی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان پاکستان کے چیف ایگزیکٹو تھے اورحلف ایسی صورت میں چیف ایگزیکٹو کو اختیار دیتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے لطیف کھوسہ سے پوچھا کہ امریکہ کی طرح پاکستان میں دستاویزات ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا کوئی قانون ہے کہ نہیں،وکیل عمران خان نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے سائفر کو ڈی کلاسیفائیڈ کیا تھا،ہمارے ملک میں ڈوالفقار علی بھٹو لیاقت خان اور بے نظیر بھٹو کیساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ بھی آپکے سامنے موجود ہے۔لطیف کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ میں سفیر اسد مجید نے یہ سائفر پہچایا تھا،ڈونل لو نے ملکی وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کی دھمکی دی تھی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ یہ ہمارے ملک کے اندرونی مسئلے میں مداخلت تھی جس پر امریکہ سے پاکستان نے احتجاج بھی کیا۔
لطیف کھوسہ نے عدالت کے سامنے وزیراعظم کا حلف نامہ بھی پڑھ کرسنایا،اوریہ بھی کہا کہ وزیراعظم بتا سکتا ہے کہ ملک کو کوئی خطرہ تو نہیں،یہ جج کرنا خود وزیراعظم کا کام ہے کہ وطن عزیز کو کسی ایکٹ سے کوئی بھی خطرہ تو نہی ہورہا۔عدالت کے سامنے وزیروں کا حلف بھی پڑھ کرسنایا گیا۔
اس پر عدالت نے پوچھا کہ آپ کا یہ کہنا ہے کہ وہ جو صیح سمجھے تو اس کو ڈسکلوز کرسکتا ہے؟
سردارلطیف نے جواب دیا جی بالکل اگروزیراعظم اسکو صیح سمجھتا ہے تو وہ ڈسکلوز کرنے کا حق رکھتا ہے،پی ڈی ایم اپنے سیاسی ہتھیارمیں غلام رہنا چاہتی ہے تو بے شک رہے۔
وکیل عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی میں جب یہ معاملہ جاتا ہے تو وہاں میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ امریکہ سے سفارتی احتجاج ہونا چاہئے،اسی دوران وزیراعظم کی ڈونلڈلو کے کہنے پر چھٹی کردی جاتی ہے،وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی پھرسے میٹنگ ہوئی۔عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو مزید بتایا کہ یہاں مولوی مشتاق کی عدالت میں ذولفقارعلی بھٹو کو بھی جنگلے میں لاکر کھڑا کیا گیا تھا اوراب عمران خان کو بھی جنگلے میں لایا گیا یہ کس بات سے ڈررہے۔کس طرح کا خوف ہے،عمران خان سابقہ وزیراعظم ہیں انکے کچھ حقوق ہیں،یہ تین ہفتے گم رہنے والے اعظم خان کا بیان لیکر آئے ہیں۔یہ بہت مذاق کی بات ہے کہ سائفر پاکستان تحریک انصاف کا چیئرمین لے گیا ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ انہوں نے ہمیں کچھ دیا ہی نہیں اوراب کہہ رہے ہیں چارج فریم کل کرنے ہیں، آپ دیکھ لیں پہلے بھی ہمایوں دلاور نےہمارے ساتھ کیا کیا،ہمارا موقف ہے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہوتے ہیں، ریاست کا مطلب ہوتا ہے پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلییاں اور علاقائی حکومتیں ہیں، ہم نے حکومت کو ریاست بنایاہوا ہے۔
اس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ریاست اورحکومت کو گڈ مڈ کر دیا ہے۔
ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے عدالت سے کہا کہ کچھ اختیار مقتدر حلقوں نے لے رکھا ہے،قوم کو اعلی عدلیہ سے یہ توقع ہے اور مجھے بھی امید ہے عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے آپ کھڑے ہوں گے، سائفر کیس میں سیکشن 5 کا اطلاق نہیں ہوسکتا،میرا کہنا ہےکہ سازش سے نکالا اور پی ڈی ایم کا خیال تھا عدم اعتماد کرکے نکالا، سائفر میرے پاس نہیں وہ وزارت خارجہ میں ہے، انہوں نے ایف آئی آر میں کوڈ لکھ کر خلاف ورزی کی ہے،ان کو کس نے کہا تھاایف آئی آرمیں کوڈ لکھ دیں۔
چیف جسٹس نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ نہ ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے نہ سیکشن 5 کا؟
جس پروکیل نے کہاجی بالکل نہ ایکٹ کانہ سیکشن 5 کا اطلاق ہوتا ہے، یہ جگہ ممنوعہ نہیں اگرکوئی سازش ملک کے خلاف ہو تو قوم کو بتانا وزیراعظم کا کام ہے، یہاں بڑی آسانی سے انہوں نےاعلان کر دیا کہ سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔
ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات بھی وکیل نے پڑھ کرسنائیں۔انکا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے آرڈر میں دھمکی بھی دی ہوئی ہے،آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں سائفر کےلفظ کا ذکر ہی نہیں صرف کوڈ کی بات کی گئی ہے۔وکیل عمران خان نے عدالت میں تحریری دلائل بھی جمع کرائے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں