اسلام آباد(جی این اے)گزشتہ دنوں رضا علی خان کی تصنیف "چائنا-پاکستان-ایران سہ فریقی تعلقات ان دی چینجنگ ورلڈ" کی کتاب کی رونمائی ک...
اسلام آباد(جی این اے)گزشتہ دنوں رضا علی خان کی تصنیف "چائنا-پاکستان-ایران سہ فریقی تعلقات ان دی چینجنگ ورلڈ" کی کتاب کی رونمائی کی تقریب کا انعقاد نیوٹیک یونیورسٹی اسلام آباد میں ہوا۔ تقریب میں مختلف تھنک ٹینکس، ماہرین تعلیم نے شرکت کی اور ریٹائرڈ سینئر ملٹری آفیشلز، سویلین معززین اور مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء کی طرف سے سفیر سہیل محمود، ڈی جی اسلام آباد اسٹریٹجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ اس موقع پر مہمان خصوصی تھے۔
تقریب کے دوران تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے معزز مقررین نے کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کئے۔
ڈاکٹر محمد خان چیئرمین شعبہ سیاست و بین الاقوامی تعلقات، ڈائریکٹر اکیڈمکس اینڈ ایگزامینیشنز، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد نے مصنف کی علمی جستجو کو سراہا۔ انہوں نے موجودہ علاقائی سیاسی اسٹریٹجک ماحول کے تحت کتاب کے مندرجات پر روشنی ڈالی اور نشاندہی کی کہ سابقہ جیو پولیٹکس کے بجائے جیو اکنامکس نے سبقت لے لی ہے۔
ڈاکٹر آمنہ محمود سابقہ ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز نے مصنف کے علمی تحقیقی کام کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ سہ فریقی ازم دو طرفہ ازم سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ ان ګا کہنا تھا کہ موضوع کو مناسب طریقے سے ہینڈل کیا گیا ہے جبکہ مختلف پیراڈائمز کا استعمال کیا گیا ہے اور پیچیدہ تعلقات ہمیشہ حقیقت پسندی پر مبنی ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد ریاض شاد پروفیسر اور شعبہ بین الاقوامی تعلقات NUM کے سربراہ نے مصنف کی علمی کاوشوں کی تعریف کی اور کتاب کے سماجی تناظر پر تبصرہ کیا۔ انہوں نے تینوں ممالک میں چین کو اس مساوات کی اصل محرک قوت کے طور پر بھی دیکھا۔
محمد طارق نیاز پی ایچ ڈی اسکالر نمل نے مصنف کی سابقہ دو کتابوں کا احوال دیتے ہوئے مصنف کے علمی جستجو کے سفر کی تعریف کرتےہوئے کہا کہ یہ سہ فریقی تعلق اس پورے علاقےکے لیے ایک جیو پولیٹیکل گیم چینجر ہے۔
آخر میں معزز مہمان خصوصی سفیر سہیل محمود جو آئی ایس ایس آئی کےڈی جی بھی ہیں نے اس اعزاز پر مصنف اور نیوٹیک یونیورسٹی کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے تہران، ایران میں مصنف کی سفارتی خدمات کا اعتراف کیا۔ کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے، سفیر نے روشنی ڈالی کہ یہ اس موضوع پر ایک اہم کام ہے: چین-ایران-پاکستان سہ فریقی تعلقات جو تیزی سے ارتقا پذیر عالمی حرکیات کی روشنی میں اس کے امکانات، چیلنجوں اور مواقع کا جائزہ لیتے ہیں۔ آخر میں سہیل محمود نے کہاکہ پاکستان کو چین امریکہ تعلقات کی موجودہ حرکیات کے تحت کسی بھی دوسری جغرافیائی دشمنی سے بچنے اور دونوں ملکوں کے ساتھ متوازن تعلقات برقرار رکھنے کی بھرپورسہی کرنی چاہیے۔علاوہ ازیں انہوں نے پرزوراندازسے یہ بھی کہا کہ بدلتے ہوئے عالمی میدان میں پاکستان کے سفارتی انداز کو عملی ہونے کی ضرورت ہے۔
اس کتاب کو پاکستان،چین اور ایران کے سہ فریقی تعلقات اور ان کے دور رس اثرات پر مستقبل اور عصری شاہکار کے طور پر سراہا گیا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں